فتح مکہ

فتح  مکہ 
 
1۔اللہ کے گھر کو بتوں سے پاک کرنا۔
اب تک جو واقعات پیش آئے درحقیقت وہ اصل مقصد کا دیباچہ تھے۔آنحضرت ﷺ کا سب سے مقدم فرض خانہ کعبہ کو بتوں کی آلائش سے پاک کرنا تھا۔خانہ کعبہ توحید کا سب سے پہلا اور واحد مرکز تھا۔لیکن قریش کی دشمنی اورقبائل عرب کی عام مخالفت نے اب تک اس کا موقعہ نہ دیا۔
 
2۔صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی:
 
صلح حدیبیہ کی بدولت ایک مرتبہ مسلمان یادگار ابراہیم کو غلط نگاہ انداز سے دیکھ آئے تھے۔لیکن قریش زیادہ دیر تک صلح حدیبیہ پر قائم نہ رہ سکے۔ حدیبیہ کی صلح کے مطابق بنی خزاعہ کو  مسلمانوں کےحلیف پر ہاتھ اٹھانے کا حق حاصل نہ تھا ۔بنی بکر کی حمایت میں قریش نے معاہدہ کے خلاف حرم میں بنی خزاعہ کو قتل کیا۔بنی خزاعہ آنحضرت ﷺ کےپاس فریاد لے کر آئے۔ آپ ﷺ نے قریش کے پاس قاصد بھیجا کہ وہ خون بہا ادا کریں یا بنی بکر کی حمایت چھوڑ دیں ورنہ اعلان کردیں کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔( تاریخ طبری ،طبقات ابن سعد)۔
 
3۔قریش کا معاہدہ توڑنے کا اعلان:
 
قریش نے متکبر انہ انداز میں اعلان کردیاکہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔جب قاصد لوٹ گیاتو انہیں اندیشہ ہوا کہ مبادامسلمان حملہ نہ کردیں اس لئے انہوں نے فوراً ابوسفیان کو تجدید معاہدہ کے لئے بھیجا ۔آحضور ﷺ چونکہ قریش کے رویہ سے بہت تنگ تھے اس لئے آپ ﷺنے انکار کردیا۔اس کے بعد آپ نے مکہ پر چڑھائی کی تیاریاں شروع کردیں اور اپنے حلیف قبائل کو بھی تیاری کا حکم دیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ احتیاط بھی کی کہ اہل مکہ خبر نہ ہونے پائے۔
 
واقعات
 
جب تیاریاں مکمل ہوگئیں تو آپ ﷺ دس ہزار کا لشکر لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور مکہ سے ایک منزل کی مسافت پر مرا الطہران کے مقام پر قیام کیا۔ قریش کو مسلمانوں کی اچانک آمد کاپتہ چلا تو ان کے اوسان خطاہوگئے۔
ابوسفیان رات کے وقت تحقیق حال کے لئے نکلا ۔لشکر اسلام کے چند سپاہیوں نے اسے گرفتار کر لیا اور آنحضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔مسلمان اس دشمن اسلام کے قتل کے درپے تھے مگر آپ ﷺ نے اپنے چچا حضرت عباس کی سفارش پر اسے معاف کردیا۔ اس حسن سلوک کا یہ اثر ہواکہ ابوسفیان فوراً مسلمان ہوگیا۔آخر ارشاد خداوندی کی تکمیل کا وقت آگیا۔ وہی محمد ﷺ جو اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ہمراہ رات کی تاریکی میں اپنی جان بچا کر نکلے تھے اس شان سے مکہ میں داخل ہوئے کہ ان کے دس ہزار جان نثار موجود تھے ۔مکہ میں داخل ہوتے وقت آپ نے اعلان کرادیاکہ جو شخص ہتھیار ڈال دے گا یا حرم پاک میں پناہ لے گا یا ابو سفیان اور حکیم بن حزام کےگھر میں پناہ لےگا یا اپنے گھر کے درواسے بند رکھے گا،اسے امان دی جائے گی۔
 
لشکر اسلام گرہوں کی شکل میں شہر کے تمام راستوں سے داخل ہوا۔ سوائے جنوب کے راستے کے اور کہیں مزاحمت نہ ہوئی۔عکرمہ بن ابوجہل اور اس کے کچھ ساتھیوں نے حضرت خالد بن ولید کے دستے کو روکنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں ایک جھڑپ  ہوئی ۔تین مسلمان شہید ہوئے اور تیرہ کفار مارے گئے۔ دینا کی مہذب اور غیر مہذب قومو ں کا ہمیشہ سے یہ اصول رہا ہے کہ جب بھی فاتح فوج مفتوح علاقے میں داخل ہوتی ہے تو وہاں کی رعایا کی جان و مال ان کے رحم وکرم پر ہوتا ہے اور وہ اسے جس طرح چاہیں تباہ وبرباد کر سکتے ہیں۔ لیکن جب اسلامی افواج فاتحانہ انداز میں مکہ میں داخل ہوئیں تو کسی شہری کو ہاتھ تک نہیں لگایاگیا۔کسی کا فرکا مال نہ لوٹا گیا۔ غیر مسلم مورخین آج تک اس حیرت انگیز حسن سلوک اور اس رواداری پر انگشت بدنداں ہیں۔
مکہ میں داخل ہوتے ہی آپ نے تطہیرکعبہ کی طرف توجہ دی اور اسے بتوں سے پاک کیا۔ اس وقت خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت تھے ۔بت توڑتے جاتے تھے اور زبان سے یہ فرماتے جاتے تھے۔
“حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل مٹنے ہی کی چیز ہے۔”  (القران)
اس کام سے فارغ ہوکر آپ کعبہ کے صحن میں آئے۔وہاں بڑے بڑے دشمنان اسلام موجود تھے جنہوں نے اسلام کو مٹانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ وہ بھی تھے جنہوں نے آپ کو قتل کرنے کے منصوبے بنائے تھے ۔یہ سب لوگ اپنے انجام سے ڈر رہے تے ۔خانہ کعبہ کو شرک کی آلائشوں سے پاک کرنے کے بعد کفار قریش کے روبرو توحید ورسالت پر حسب ذیل خطبہ ارشاد فرمایا جس کا خطاب نہ صرف عرب بلکہ عالم اسلام سے تھا آپ نے درکعبہ پر کھڑے ہوکر فرمایا۔
” ایک خدا کے سواکوئی معبود نہیں ۔اس کا کوئی شریک نہیں ۔اس نے اپنا وعدہ سچا کردکھایا ۔اس نے اپنے عاجز بندے کی مدد کی ،اور تمام جتھوں کو تنہاچھوڑدیا۔جان لو کہ تمام گھمنڈ اور مال و دولت کے دعوے میرے ان قدموں کے نیچے ہیں اے قوم قرایش! اب جاہلیت کا غرور اور نسب کا فخر خدانے اسے مٹادیا۔تمام انسان آدم کی نسل سے ہیں اور آدم مٹی سے بنے تھے لوگ دو قسم کے ہیں ایک وہ جو نیک اور پارسا ہیں اور اللہ کی نگاہ میں معزز ہیں دوسرے وہ جو بد کار و بد بخت ہیں اور اللہ کی نگاہ میں ذلیل ہیں۔”
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے اے لوگو! ہم نے تمہیں نر ومادہ سے پیداکیا اور پھر تمہیں خاندانوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا،تاکہ تمہیں ایک دوسر کی پہچان ہو۔بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں معززترین وہ ہے جو تم میں تقویٰ میں سب سے بڑھ کرہے۔بے شک اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے ۔
 
خطبہ کے بعد آنحضور ﷺ نے مجمع کی طرف دیکھا تو معززین قریش سامنے تھے۔ ان میں وہ سرکش بھی تھے جو اسلام کو مٹانے میں پیش پیش تھے۔وہ بھی تھے جن کی تلخ نوائی نے مومنین کے سینے چھلنی کر دیئے تھے ۔جو تبلیغ کے وقت پتھر پھینک پھینک کر آپ کو زخمی کردیاکرتے تھے۔وہ بھی تھ جو قسمیں کھا یا کرتے تھے کہ ان کی پیاس خون نبوت کے سواکسی اور چیز سے نہی بجھ سکتی ۔وہ بھی تھے جن کی نفرت وعداوت کا سیلاب مدینہ کی دیواروں سے آکر ٹکراتاتھا۔رسول اللہ ﷺ نے ان سب کی طرف دیکھا اور فرمایا۔
“تمہیں معلوم ہے میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں ؟”یہ سن کر ان جابرو ظالم انسانوں کے دل لرز اٹھے لیکن انتہائی لجاحت سے پکارے تو شریف بھائی ہے اور شریف بھتیجا۔”
آپﷺ نے نظریں اٹھائیں اور ارشاد فرمایا۔”آج تم پر کوئی الزام نہیں ۔جاؤ تم سب آزاد ہو۔فتح مکہ کے بعد آنحضرت ﷺنے اپنے اور اسلام کے دشمنوں اور اسلام کے دشمنوں سے جس عفوودرگزر کا سلوک کیاتاریخ عالم میں اس کی مثال ملنی مشکل ہے ۔مہاجر ین کی جائیداد پر کفار مکہ نے قبضہ کرلیا تھا۔اب اسے واپس لینا مسلمانوں کا جائز حق تھا۔لیکن آنحضرت ﷺ کی ہدایت پر تاتحین مکہ اس سے بھی دستبردارہوگئے۔آپ ﷺ کے فیاضانہ سلوک اور رحمدلی سے متاذرہو کر لوگ جوق درجوق آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے۔جولوگ اسلام لانے کے لئے حاضر ہوئے آپ ﷺ نے ان کے تمام قصور معاف کردیئے ۔جو خوفزدہ ہو کر مکہ سے بھاگ گئے تھے ان کو بھی امان دے کر واپس بلا لیا۔قریش کے اسلام لانے کے بعد دیگر قبائل بھی جلد ہی مشرف بہ اسلام ہوگئے۔
نماز کا وقت آیا تو حضرت بلال نے بام کعبہ پر چڑھ کر اذان دی۔قریش کا فخر غرور اگر چہ خال میں مل چکا تھا مگر اب بھی جاہلیت کی عصبیت باقی تھی۔ چناچہ اذان کی آواز سن کر ان کی غیرت مشتعل ہوگئی اور عتاب بن اسید کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا۔”خدا نے میرے باپ کی عزت رکھ لی کہ اس آوازکو سننے کے لئے زندہ نہ رہا۔”
تاہم ان کے لئے دامن رحمت کے علاوہ اور کوئی جائے پناہ باقی نہ رہی تھی۔آنحضرت ﷺ کوہ صفا کے ایک بلند مقام پر تشریف فرماتھے ۔کفار جوق در جوق آکر بیعت اسلام سے مشرف ہوتے تھے۔آپ مکہ میں پندرہ دن قیام کرنے کےبعد حضرت معاذبن جبل کو نومسلموں کی تعلیم کے لئے چھوڑ کر مدینہ تشریف لائے۔

Post a Comment

0 Comments